جنوبی افریقہ میں کالے شہریوں پر ظلم کی تاریخ
ساوتھ افریقہ کا کیپیٹل سٹی،کیپ ٹاؤن کی یہ پتلی سی گلی ،بلیک اور وائٹ لوگوں کے رہائشی علاقوں کو تقسیم کرتی ہے۔اور یہ دونوں جگہیں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے۔وائٹ یا سفید فام لوگوں کے ایریا میں ہر قسم کی سہولیات موجود ہیں۔ان میں وسیع اور کشادہ گھر،گھروں کے سامنے صحن ،صفائی کا خاص انتظام وغیرہ۔لیکن کالے حبشی جوکہ اصل میں یہاں کے مقامی باشندے بھی ہیں،ان کا علاقہ انتہائی خستہ حال ہے۔یہاں چاروں طرف غریبی ہی غریبی نظر آتی ہے۔اگرچہ ان دونوں علاقوں میں صرف 100 میٹر کا ہی فاصلہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے دونوں علاقوں میں صدیوں کا فاصلہ ہو۔جہاں سفید فام لوگوں کے علاقے میں ہر طرح کی سہولیات ہیں وہاں کالے افریقیوں کے علاقوں میں رہنے والے زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔یہاں نہ بجلی ہے نہ پانی۔یہاں قانون کے مطابق کالے افریقی سفید فارم لوگوں کے علاقے میں مکان تک نہیں خرید سکتے۔تقریبا ایسی ہی صورت حال پورے ساوتھ افریقہ کی ہے۔ہزاروں سالوں سے جنوبی افریقہ سیاہ فارم لوگوں کا گھر رہا ہے لیکن اس کے باوجود کیسے سفیدفام لوگوں نے اسے غلام بناکر اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بنادیا تھا،آج کی اس ویڈیو میں ہم اس پر بات کریں گے۔
یہ بورڑ جنوبی افریقہ میں ان علاقوں میں لگتے تھے جہاں کالے باشندے رہتے تھے۔
افریقہ قدرتی وسائل سے مالا مال براعظم ہے مگر آج کی جدید دنیا میں بھی اس کے زیادہ تر ممالک ترقی کرنے کی صرف کوشش
ہی کر رہے ہیں-پرانے وقتوں میں اس کی کئی نسلیں انسانی لالچ،طاقت کے نشے،قدرتی وسائل پر قبضے اورنسل پرستی کی بھینٹ
چڑھ گئیں-طاقت و معاشی کھینچاتانی میں براعظم افریقہ کے لوگ آج بھی دنیا میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سائے میں
اپنی رنگت اور نسل کی وجہ سے ڈسکریمنیشن سے دو چار ہیں-افریقہ کے ایک ایسے ہی ملک،جنوبی افریقہ کے باشندوں نے تقریباً
پانچ سو سال تک آزادی کی جنگ لڑی ۔جب بھی جنوبی افریقہ کا نام سامنے آتا ہے تو ذہن میں آنے والی چیزوں میں سے ایک
قانونِ نسل پرستی( Law Apartheid) اور دوسرا نیلسن منڈیلا(Nelson Mandela)ہیں کیونکہ نیلسن
منڈیلا کی قانونِ نسل
پرستی کے خلاف جدوجہد سے افریقہ میں آنے والے انقلاب کو بیسویں صدی کا ایک عظیم
انقلاب مانا جاتا ہے۔
افریقہ میں یورپی آبادکاری کی خونریز تاریخ
افریقہ میں آبادکاری کی تاریخ
ہزاروں سال پرانی ہے جِس کا اندازہ وہاں سے ملنے والے انسانی ڈھانچوں سے لگایا گیا
ہے- مگر افریقہ کی باقاعدہ لکھی ہوئی تاریخ کے تانے بانے ہمیں مغربی نو آبادیات کے
آنے کے بعد خصوصاً ڈچ یا ولندیزیوں کے دور میں ملتے ہیں جِن کے مطابق جنوبی افریقہ
کے مقامی باشندے (سیاہ فارم)’’کھوئسان‘‘ کے نام سے مشہور تھے-براعظم افریقہ کی طرح
جنوبی افریقہ کی تاریخ بھی سیاہ بادلوں میں لپٹی ہے جِس سے آج بھی وہاںسفید
فارم آقاوں کے ستائے ہوئے مظلوم انسانوں کی آہیں بلند
ہو تی ہیں ۔مغربی نو آبادیاتی دور میں جنوبی افریقہ پر سب سے پہلے قبضہ ’’ڈچ‘‘
حکومت نے کیا جو۱۶۵۲ء میں سمندری تجارتی راستے
میں آرام گاہ بنانے کی غرض سے افریقہ کے ساحلی پٹی کیپ آف گڈ ہوپ (Cape
of Good hope) پر پہنچی اور ڈچ ایسٹ انڈیا
کمپنی کے حکم پر وہاں قلعہ تعمیر کیا اور آہستہ آہستہ تمام علاقے پرپھیلنا شروع ہو
گئے انہوں نے مقامی باشندوں کو غلام بنا لیا جِن کے ساتھ انسانوں سے بھی بدترین
سلوک کیا گیا۔پہلے وہاں کے لوگوں کو غلام بنایا جاتا اور انسانوں سے بد تر سلوک
کیا جاتا،اگر کوئی غلام کام کے قابل نہ ہوتا تو اسے کھلے آسمان تلے مرنے کے لیے
پھینک دیا جاتا۔
اس
علاقے میں ڈچ فوج کے ساتھ ساتھ جرمن اور فرانسیسی باشندے بھی آباد ہونے لگے جو کہ
افریقنار یا بوئرز( Afrikaner farmers, or
Boers)کے
نام سے پہچانے جانے لگے- ۱۷۹۵ء
میں برطانوی سامراج باقی دنیا کی طرح افریقہ کی سر زمین پر پہنچا اور ڈچ قبضہ کا
خاتمہ کر کے نئے قبضہ کی بنیاد رکھی۔برطانوی کولونائزرز نے بھی سیاہ فارم افریقیوں
پر ظلم میں کوئی کمی نہیں چھوڈی۔
برطانوی
سامراج سے تنگ مقامی کالے حبشیوں نے شاکا (Shaka) کی قیادت میں ذولو(Zulu) بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ڈچ قبضہ کے دورانیہ
میں جنوبی افریقہ میں آباد ہونے والے یورپی باشندوں کی طرف سے افریقنار یا
بوئرز( Afrikaner farmers, or
Boers)کی
گریٹ تریک تحریک(Movement The Great
Trek) کا
آغاز جِس کا مقصد بارہ ہزار (۱۲۰۰۰)سے
زائد لوگوں کی آباد کاری کے لیے زمین کا حصول تھا-۱۸۳۸ء
کو ذولو (Zulu) فوج
اور افریقنار یا بوئرز(
Afrikaner farmers, or Boers) کے درمیان خونی جنگ ( The Battle of Blood River) ہوئی جِس میں افریقی نیزے
اور چمڑے کی ڈھالیں بندوقوں کا مقابلہ نہ کر سکیں کیونکہ تقریباً پانچ سو (۵۰۰)بوئرز کے مقابلے میں دس ہزار زولو آرمی شکست
کھا گئی اور بوئرز (Boers) ناتل (Natal )نامی علاقے، موجودہ ڈربن (Durban)میں ذولو باشندوں کو شکست دے کر آباد ہو گئے -
برطانوی سامراج نے اِس جنگ کے بعد بوئرز (Boers) کو ایک الگ ( The Orange Free State )کے نام سے مشہور علاقہ
رہائش کے لیے دے دیا- بوئرز
(Boers) نے
برطانوی سامراج کے زیر اثر خودمختار علاقے میں آباد مقامی باشندوں کے علاقے پر
قبضہ کی کوششیں شروع کر دی جو کہ اس وقت ( The Orange Free State ) کا حصہ تھا - اِس علاقے کے
بادشاہ میوشیشو (King Moshoeshoe) نے
برطانوی سامراج سے درخواست کی کہ ان کے علاقے کو (The Orange Free State )الگ کر دیا جائے جس کی بنیاد
پر برطانوی سامراج نے اِس علاقے کو ۱۸۶۸ء
کو (Lesotho) کے
نام سے ایک الگ ریاست بنا دیا۔۱۸۶۷ء
میں دریافت ہونے والے سونا اور ہیرے کی کانوں نے افریقہ میں آباد برطانوی سامراج
کے زیر اثر ریاستوں کو برطانوی حکومت کے خلاف لا کھڑا کیا جِس پر برطانوی سامراج
نے تمام کو شکست دے کر پورے کیپ آف گڈ ہوپ Cape of Good hopeموجودہ جنوبی افریقہ) پر قبضہ کر لیا۔
امتیازی سلوک کی داستان
۱۸۹۹ء میں جنوبی افریقہ میں آباد سفید فام
باشندوں میں ایک بار پھر معاشی برتری کے لیے جنگ شروع ہو گئی جِس کو اینگلو- بوئر
وار(The Anglo-Boer
War) کہتے
ہیں جِس میں برطانیہ کامیاب رہا مگر دونوں طرف سے افریقی غلاموں کو ایک دوسرے کے
ساتھ لڑوایا گیا۔ اِس جنگ میں جنوبی افریقہ کی کل آبادی کے پچاس فیصد (%۵۰)سیاہ فام بچے مارے گئے- لیکن ساتھ ساتھ اس جنگ
نے سیاہ فام باشندوں کو آزادی کی ایک نئی
امیددی کیونکہ برطانوی سامراج جنگوں کی وجہ سے کمزور ہوتا گیا۔لیکن انہوں نے مقامی
باشندوں کی امیدوں اور سڑسٹھ فیصد (%۶۷)سیاہ
فام لوگوں کو ملحوظِ خاطر لائے بغیراُس وقت کی چار ریاستوں Cape Colony, Natal Colony, Transvaal Colony
and Orange River Colon کو ملاکر
موجودہ جنوبی افریقہ کے حکومتی معاملات سفید فام لوگوں کے حوالے کر تے ہوئے ۳۱ مئی ۱۹۱۰ءکو
جنوبی افریقہ کو نوآبادیاتی نظام سے آزادی دے دی ۔یہ
آزادی صرف داخلی معاملات میں تھی۔بیرونی معاملات برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں رکھے۔برطانیہ
نے ایک اور قانون (Statute of Westminster
act) کے تحت ساتھ افریقہ کو
اپنے ماتحت ہی رکھااور برٹش کامن ویلتھ کا حصہ بنائے رکھا۔اس نام
نہاد
آزادی کے بعد سیاہ فام لوگوں کو اور بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سفید فام
لوگوں نے سیاہ فام لوگوں کے خلاف نئے اورانوکھےقانون بنانے شروع کردئے۔
کالے شہریوں کے خلاف انوکھے قوانین
قانونِ
زمین ۱۹۱۳ء ( Land Act 1913 ) : جِس کے تحت جنوبی افریقہ کی نوے فیصد (%۹۰)زمین کی کے مالک سفید فام لوگ مانے گئے۔
قانونِ
شہری علاقہ جات ۱۹۲۳ء( 1923 The Urban Area Act) : جِس کے تحت شہروں میں سفید فام اور سیاہ فام
لوگوں کی الگ الگ ہاوسنگ سوسائٹیز بنائی گئیں۔
قانونِ
مقامی انتظامی امور۱۹۲۷ء (Native Administrative Act 1927 )جِس کے تحت کاکے افریقی کسی بھی حکومتی معاملے میں شامل
نہیں ہوسکتے تھے۔
قانونِ
مقامی نمائندگیِ ۱۹۳۶ء (Representation of Native Act) :جِس کے تحت سیاہ فام لوگوں کو حکومت نہ کرنے یہاں
تک کہ ووٹ کرنے کے حق سے بھی محروم کر دیا۔
’’ایک افریقی بچہ صرف افریقی ہسپتال میں پیدا ہوتا،صرف افریقی
بس میں گھر لے جایا جاتا،صرف افریقی علاقہ میں رہتا اور صرف افریقی سکول میں
جاتا،اگر وہ سکول جا پاتا‘‘-
یعنی ایک
افریقی بچہ جس ہسپتال میں پیدا ہوتا اس کے دروازے پر لکھا ہوتا ہے صرف افریقی ، وہ
جِس علاقے میں رہتا ہے ، جِس بس میں گھر جاتا ہے اور جِس سکول میں پڑھتا ہے اگر
سکول میں داخل کرایا جاتا ہے تو ان سب پر صرف افریقی کا لیبل چسپاں ہوتا -اِن تمام
باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو اِس بات کو کہنے میں کوئی عار نہیں کہ۱۹۱۰ء میں سفید فام افریقی باشندوں کی آزادی اور
سیاہ فام باشندوں کی اپنے ہی ملک میں،اپنی ہی حکومت سے اپنے ہی حقوق کی
مسلسل جدوجہد کو جلا ملی کیونکہ سیاہ فام افراد کو ۲۷ اپریل ۱۹۹۴ء میں ان
کے حقوق دیے گئے اور تب سے جنوبی افریقہ میں یومِ آزادی ۲۷اپریل کو منایا جاتا ہے۔
ظلم کے خلاف باقاعدہ تحریک کا آغاز
اس کے خلاف باقاعدہ طور پر تحریک کا آغاز ۸ جنوری ۱۹۱۲ءکو ساؤتھ افریقن نیٹو نیشنل کانگرس کی صورت میں کیا گیا جِسے بعد میں افریقن نیشنل کانگریس کا نام دیا گیا۔اس کے خلاف ۱۹۱۴ء میں سفید فام باشندوں نے نیشنل پارٹی بنائی جِس کا مقصد جنوبی افریقہ کو صرف سفید فام لوگوں کی زمین بنانا تھا-۱۱دسمبر۱۹۳۱ء میں نیشل پارٹی کی پارلیمنٹ میں اکثریت نے جماعت کو اپنا مقصد پورا کرنے کا موقع دیا جِس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ نے بیل فور ڈکلیریشن (Balfour Declaration of 1926)کے تحت یو نین ایکٹ پیش کرتے ہوئے آزاد خودمختار ریاست کا اعلان کردیا اور سٹیچوٹ آف ویسٹ منسٹر ایکٹ (Statute of Westminster act) کو ختم کر دیا۔
جنوبی افریقہ کی آزادی اور اسکے بعد ظلم
۱۹۶۱ء
کو جنوبی افریقہ کامن ویلتھ سے نکل گیا اور ریپبلک آف ساؤتھ افریقہ کا اعلان کر
دیا۔اس کے ساتھ ہی تیس لاکھ (۳۰۰۰۰۰۰)سیاہ
فام لوگوں کو سفید فام علاقوں سے زبردستی
نکالا گیا اور پرتشدد واقعات میں بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے- افریقن نیشنل
کانگریس پر پابندی لگا کر نیلسن منڈیلا کو عمر قید کی سزا دی گئی -۱۹۸۴ءمیں پورے ملک میں قانونِ نسل پرستی کے خلاف
سیاہ فام باشندے اٹھ کھڑے ہوئے-۱۹۸۹ء
میں ایف-ڈبلیو-ڈی -کلرک(
F.W. de Klerk) ملک کے صدر بنے اور قانونِ نسل پرستی کاخاتمہ
کرتے ہوئے۲۷ اپریل۱۹۹۴ءکو
پہلے مکمل جمہوری الیکشن کا انعقاد ہوا جس میں نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے
سیاہ فام صدر بنے -۲۷ اپریل کو جنوبی افریقہ میں
یوم ِآزادی کے طور پر منایا جاتاہے ۱۸۷۰ءمیں جنوبی افریقہ میں آنے والے معدنیاتی
انقلاب(Mineral Revolution) سے پہلے یہ خطہِ زمین صرف
کاشت کاری اور ذرخیز زمین کی وجہ سے مشہور تھا - مگر ۱۸۶۷ءاور ۱۸۸۶ء میں کمبرلے
(Kimberley) نامی علاقہ میں ہیروں اور
وٹواٹرسینڈ(Witwatersrand)میں سونے کے ذخائر کی دریافت نے افریقہ
میں صنعتی انقلاب برپا کرد یا- مگر شائد آزادی کی طرح یہ انقلاب بھی صرف سفید فام
لوگوں کے لیے تھا کیونکہ جنوبی افریقہ میں لگائی گئی فیکٹریوں میں نہ صرف افریقہ
کے سیاہ فام باشندوں بلکہ پوری دنیا سے لوگوں کو غلام بنا کرکام لیا گیا-اگر کوئی
قبیلہ یا غلام اِن کے احکامات یا اقدامات کے خلاف مزاحمت کرتا تو ان پر حملہ کر
دیا جاتا اور جدید اسلح کے مقابلے میں وہ قبائلی لکڑی کے بھالوں سے لڑنے پر مجبور
ہوتے اور کئی ساتھیوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد اگلی صبح پھر قابض افواج کی غلامی
پر مجبور ہوتے - قابضین کے لیے صنعتی انقلاب کا اس وقت مطلب افریقہ سے قدرتی وسائل
کو مقامی لوگوں سے چھین کر اپنے ملک میں لے جانا تھا کیونکہ آج اگر بر اعظم افریقہ
کی حالت دیکھی جائے تو یہ بخوبی سمجھ آتی ہے۔