ہندوستان کی سب سے پرانی مسجدیں
ہندوستان میں پہلاشخص مسلمان کب ہوا اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا
جاسکتا۔لیکن یہ بات طے ہے عرب تاجراسلام کی آمد سے پہلے بھی ہندوستان تجارت کے
غرض سے آتے جاتے رہتے تھے۔جب عرب میں نبی آخرالزمان ﷺ کا ظہور ہوا اور اسلام
پھیلنے لگا تو انہی عرب تاجروں کے زریعے ہند بھی اسلام سے روشناس ہوا۔انہی عرب تاجروں
نے جوکہ اب مسلمان ہوچکے تھے ،ہند کے ساحلی علاقوں میں مساجد تعمیر کیں۔ہندوستان
میں بہت سی مساجد ایسی ہیں جو نبی کریم ﷺ کے دور میں انہی صحابہ کرام نے تعمیر
فرمائی ہیں۔آج کی اس ویڈیو میں ہم بات کرنے والے ہیں برصغیر کی ۵تاریخی مساجد کے بارے
میں جو ہند کی سب سے پرانی مسجدیں ہیں۔
چودہ سوسال قبل تعمیر کی گئی مسجد گجرات کے بھاؤ نگر کے گاؤں گھوگھا میں اب بھی موجود ہے۔جس کا قبلہ رخ بیت المقدس کی طرف ہے۔ |
5۔مالک دینار مسجد (تقریباً 720-740 عیسوی)
ملک دینار مسجد ہندوستان کی قدیم ترین مسجدوں میں سے ایک ہے، جو ہندوستان کی ریاست کیرالہ کے کیسرگوڈ
قصبے کے تھالنگارا میں واقع ہے۔ اس مسجد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ صحابی رسولﷺ
حضرت ملک دینار نے اس کی بنیاد رکھی تھی مالک
دینار مسجد بھارت کی
ریاست کیرالا کے مقام کاسرگوڈ میں واقع ہے۔ مشہور تاریخی کتاب تحفت
المجاہدین میں لکھا ہے کہ ملکِ عرب سے تشریف لائے ہوئے مالک دینار نے دھرمڈم،
کولم، ماڈائی، ولاپٹنم، سری کنٹھاپورم، کاسرگوڈ وغیرہ 9 مقامات پر مساجد بنائیں ۔
4۔پالیا جمعہ پالی تامل ناڈو
پرانی جامع مسجد،ہندوستانی صوبہ تامل ناڈوکی مسجد ہے۔ 628-630 عیسوی میں تعمیر کیا گیا، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔یہ جنوبی ہندوستانی ریاست تامل ناڈو کے ایک قدیم بندرگاہی شہر کیلاکارئی (Kilakarai) میں واقع ہے جو اپنی اسلامی ثقافت کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 628-630 عیسوی میں ہوئی ۔ قصبے میں موجود دیگر مسجدوں کے ساتھ یہ مسجد دراوڑی اسلام کے فن تعمیر کی سب سے بڑی مثالوں میں سے ایک ہے۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ، نے اپنے سفرنامے میں بھی اس مسجد کا زکر کیا ہے۔
3۔چیراماں جمعہ مسجد کیرالہ بھارتی ریاست کیرالہ کے میتھلا، کوڈنگلور، تھریسور میں ایک مسجد ہے۔کہاجاتا ہے
کہ یہ 629 عیسوی میں تعمیر کی گئی ہے۔ جو اسے برصغیر پاک و ہند کی سب سے قدیم مسجد
بناتی ہے جو اب بھی درست حالت میں ہے۔اسے کیرالہ کے چیرا بادشاہ چیرامن پیرومل کے
جانشین کے حکم پر بنایا گیا تھا۔مسجد کو کیرالہ کے خاص فن تعمیرسے تعمیر کیا گیا ہے۔ 2۔ہرانو مسجد ’ہارانو مسجد‘یا
کھوئی ہوئی مسجد بنگلہ دیش کے ایک گاؤں رامداس میں دریافت
ہوئی تھی ۔مسجد 21 فٹ چوڑی اور 10 فٹ اونچی ہے۔ چار ستون ہیں۔ ان میں سے دو گر چکے
ہیں۔اکثر، مختلف جگہوں سے زائرین یہ خیال کرتے ہوئے مسجد کا دورہ کرتے ہیں کہ یہ صحابہ
کرام کی بنائی ہوئی مسجد ہے۔ اسلئے مقامی لوگ اسے صحابہ کرام کی مسجد کہتے ہیں۔
بہت سے مورخین اور محققین کا دعویٰ ہے کہ یہ غالباً برصغیر میں عربی کیلنڈرکے
اعتبار سے 69 ہجری میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے۔ یہ مسجد حیران کن طور پر ایک
عرصے تک مقامی لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہی۔تاہم ۱۹۸۷ میں اسکی باقیات دریافت
ہوئیں۔جس کے بعد اس مسجد کو کھدائی کرکے زمین سے نکالا گیا۔جس علاقے میں یہ مسجد
دریافت ہوئی ،وہ جنگلی علاقہ ہے۔اس علاقے کو مقامی زبان میں موسدر آرا کہا جاتا
ہے ۔جسکا مطلب مسجد والا جنگل ہوتا ہے۔ 1۔بروادہ مسجدگجرات شاید ہندوستان کی
تقریباً1400سال قبل تعمیر کی گئی مسجد گجرات کے بھاؤ نگر کے گاؤں گھوگھا میں اب
بھی موجود ہے۔جس کا قبلہ رخ بیت المقدس کی طرف ہے۔مسجد کی عمارت انتہائی خستہ حالت
میں ہے۔ مسجد کے اندر 25لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ مسجد کے بارہ ستون ہیں جن پر
مسجد کی تعمیر کی گئی ہے۔مسجد کی دیواریں بھی کنندہ ہیں اور مسجد کی دیواروں پر
نقش ونگار ی اسی دور کی ہے جس کے محرابوں پر تحریر کردہ بسم اللہ الرحمن الرحیم
بھی اسی دورکا ہوسکتا ہے۔یہ زمین مسجد قبلتین کے بعدبیت المقدس کے رخ پر تعمیر کی جانے والی
واحد مسجد بھی ہوسکتی ہے۔جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مسجد ہندوستا ن کی سب
سے پرانی مسجد ہوسکتی ہے۔کیونکہ بیت المقدس ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد ۱۷
مہینوں تک مسلمانوں کا قبلہ رہا ہے۔اس مسجد کی تعمیر کی صحیح تاریخ کا کسی کو نہیں
معلوم لیکن اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مسجد ۶۱۰ عیسوی اور ۶۲۳ عیسوی کے درمیان بنائی گئی ہوگی۔جس
سے اس بات کو یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسجد ۱۴۰۰ سال پرانی ہے۔