برقائی خان پہلا مسلمان منگول بادشاہ اور عالم اسلام کا مسیحا


برکہ خان یا برقائی خان چنگیز خان کا پوتا اور منگولیا کا ایک فوجی کماندار اور منگول سلطنت کے اردوئے زریں کا حکمران تھا۔ برکے چنگیز خان کے سب سے بڑے بیٹے جوچی کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ان کی تاریخ پیدائش 1207 اور 1209 کے درمیان مانی جاتی  ہے۔اسلام قبول کرنے والا پہلا منگول حکمران تھا۔برکے اپنے بھائی باتو کی موت کے فوراً بعد گولڈن ہورڑ کے حکمران بنے۔ وہ 1250کی دہائی میں ایک مسلمان عالم نجم الدين مختار الزاهدي کے ہاتھوں بخارا میں مسلمان ہوئے ۔ انہی کی کوششوں سے ہی ان کے بھائی تغلق تیمور بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔انہوں نے ایک خط لکھ کر مصر کے سلطان رکن الدین بیبرس کو یہ اطلاع دی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے چچازاد ہلاکوخان کے خلاف جہاد کے لیے تیار ہے اور اس مقصد کے لیے مصر سے اتحاد کرنا چاہتا ہے۔ سلطان بیبرس نے یہ پیش کش بخوشی قبول کرتے ہوئے ائمہ حرمین شریفین کو برکہ خان کے لیے دعاؤں کا حکم لکھ بھیجا۔


تمام شہروں میں بھی فرمان بھیجا گیا کہ جمعہ کے خطبے میں خلیفہ اور سلطان کے بعد برکہ خان کے لیے دعا کی جائے۔برکہ خان کی سلطنت قفقاز کے کوہساروں سے بلغاریہ کی حدودتک وسیع تھی۔ شوال 660ھ (ستمبر 1262ئ) میں ہلاکو شام اور مصر پر دوبارہ حملے کی تیاری کررہا تھا کہ برکہ خان کی فوج قفقاز کے فلک بوس درّوں سے نمودار ہونے لگی۔یہ دیکھ کر ہلاکو خان کو شام کی مہم ملتوی کرکے بحیرۂ خزر کی طرف فوج بھیجنا پڑی۔ اس لشکر نے دریائے تیرک عبور کرکے برکہ کی فوج کو وقتی طور پر پسپا کیا، مگر برکہ کے بھتیجے نوگائی کے جوابی حملے میں ہلاکو کا لشکر درہم برہم ہوکر پیچھے ہٹتے ہوئے دریائے تیرک تک آگیا۔ اس وقت موسم سرما عروج پر تھا۔ دریا کی سطح جو سخت سردی سے منجمد ہوچکی تھی لشکر کے بوجھ سے ٹوٹ گئی اور تاتاریوں کی بڑی تعداد ڈوب کر مرگئی۔ ہلاکوخان کا ایک بیٹا بھی مارا گیا اور وہ خود پسپا ہوکر بحیرۂ آذربائی جان کے ایک جزیرے میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔ اس کے بعد ہلاکو کی ایل خانی اور برکہ کی زرّیں خیل سلطنتوں میں جھڑپوں کا دائرہ کار مشرق تک پھیل گیا۔ ہلاکو نے گرجستان اور آرمینیا کے نصرانی حلیفوں کو ساتھ ملا کر زرّیں خیل کی سرحدوں پرحملے شروع کیے۔ جواب میں برکہ نے نہ صرف روسیوں اپنی فوج میں بھرتی کیا،بلکہ وسطِ ایشیا تک تسلط حاصل کر لیا۔ سمرقند و بخارا کے مسلمان جوق درجوق اس کی فوج میں شامل ہونے لگے۔ بحیرۂ خزر کے جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں ان دونوں سلطنتوں کے مابین مسلسل جھڑپیں ہوتی رہیں۔ برکہ کے سپاہی ایمان و ایقان سے بھرپور تھے، جبکہ ہلاکو کی فوج کے سامنے خون ریزی کے سوا کوئی ہدف نہ تھا۔ اس کے سپاہی پست ہمت ہوکر منتشر ہونے لگے۔ بہت سے سلطان بیبرس کی تلوار سے خوفزدہ ہوچکے تھے اور بہت سے برکہ خان کے قبولِ اسلام کے بعد توحید کی طرف راغب ہو رہے تھے۔ تاتاری اب دو واضح جماعتوں میں بٹ گئے تھے۔ اسلام دشمن اور اسلام دوست۔ اسلام دوست تاتاری خود کو برکہ خان کی طرف منسوب کرنے لگے۔ ان میں جو شامی سرحدوں کے آس پاس تھے، انہیں برکہ خان کی دوردراز مملکت کی بجائے مصر جانا بہتر محسوس ہوا، چنانچہ ہزاروں تاتاری مصر کی طرف منتقل ہونے لگے۔ سلطا ن کو اطلاع ملی تو تمام شہروں کے گورنروں کو حکم دیا کہ ان کی پوری طرح مہمانی اور دلجوئی کی جائے اور زادِسفر دے کر مصر بھیج دیا جائے۔ کچھ دنوں میں تاتاریوں کے کئی گروہ مصر پہنچے اور سلطان سے امان طلب کی۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ تاتاری کسی غیر قوم سے امان مانگ رہے تھے، ورنہ اس سے پہلے ان کے ہاں ایسی کوئی مثال نہ تھی۔ وہ صرف مارنا یا مرنا جانتے تھے۔ سلطان نے ان کی بہت بڑی ضیافت کی، انعام و اکرام سے نوازا اور رہائشیں دیں۔ ان کی بڑی تعداد مشرف بااسلام ہو گئی۔ اس طرح ایک سفاک فاتح قوم اسلام کی مفتوح 
ہو گئی۔