یہودیت کی مکمّل تاریخ حصّہ اوّل

یہودیت کی تاریخ ملکمل حصّہ اوّل



عبرانی بائبل کے مطابق یہود قدیم بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں، جو بحیرہ روم کے مشرقی ساحل اور دریائے اردن کے درمیان کنعان میں آباد ہوئے

اگرچہ یہودیت بطور مذہب یونانی تاریخی حوالوں کے مطابق سب سے پہلے ھلنستی دور (31 ق م – 323 ق م) میں ظاہر ہوا اور اسرائیل کا قدیم ترین ذکر، قطبہ مرنپتاح  2013–1203 ق م پر لکھا ملتا ہے، مگر مذہبی ادب بنی اسرائیلیوں کی کہانی 1500 سال ق م پرانی بتلاتا ہے۔

یہودی جلاوطن برادری اسوری فتح کے ساتھ ہی شروع ہوئی اور بابلی فتح پر شدت اختیار کی۔ یہودی رومی سلطنت میں بھی جابجا پھیلے ہوئے تھے، جس میں بازنطینی حکمرانی دور میں وسطی اور مشرقی بحیرہ روم میں کمی واقع ہوئی ہے۔

638ء میں بازنطینی سلطنت نے بلاد شام اور مشرقی بحیرہ رومی علاقوں کا قبضہ کھو دیا، عرب اسلامی سلطنت کے تحت خلیفہ عمر نے یروشلم، میسوپوٹامیا، شام، فلسطین اور مصر فتح کیا۔

اسپین میں یہودی ثقافت کا سنہری دور مسلم سنہری دور اور یورپ کے قرون وسطی کے تاریک دور ساتھ وقوع پزیر ہوا جب جزیرہ نما آئبیریا کے زیادہ تر علاقوں میں مسلم حکمرانی تھی۔ اس دور میں یہودیوں کو عام طور پر معاشرے میں تسلیم کیا جاتا تھا چنانچہ یہودی مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی نے ترقی کی۔

یہودی تاریخ کے ادوار

یہودیوں اور یہودیت کی تاریخ پانچ ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(1) آغازِ یہودیت سے قبل کا قدیم اسرائیل۔ 586 ق م۔

(2) 5 اور 6 صدی ق م میں آغازِ یہودیت کے دوران۔

(3) ہیکل دوم کی تباہی کے بعد 70ء میں ربیائی یہودیت کی تشکیل۔

(4) رہبائی یہودیت کا دور رَفعِ مسیحیت سے لیکر 312ء میں حکمران قسطنطین اعظم کے سیاسی دورِ اقتدار تک اور 18ویں صدی کے آخر میں مسیحی سیاسی بالادستی ک خاتمے تک ۔

(5) مختلف یہودیت کا دور، فرانسیسی اور امریکی انقلابات سے لیکر موجودہ دور تک۔

ابتدائی یہودیوں اور ان کے پڑوسیوں کی تاریخ زرخیز ہلال اور بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر مرکوز ہے۔ یہ تاریخ ان لوگوں میں شروع ہوتی ہے جو دریائے نیل اور بین النہرین کے درمیانی علاقوں  میں رہتے رہے۔ اس کے اطراف میں قدیم مصر اور بابل، عرب کے ریگستان اور پہاڑ۔ ایشیائے کوچک، کنعان کی زمین (جو موجودہ اسرائیل، فلسطین، اردن اور لبنان کے علاقے بنتے ہیں) تہذیبوں کی مقامِ اِجتماع تھا۔

عبرانی بائبل کے مطابق یہود قدیم بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں، جو کنعان کے علاقے میں بحیرہ روم کے مشرقی ساحل اور دریائے اردن کے درمیان میں آباد ہوئے۔ عبرانی بائبل  ’’بنی اسرائیل‘‘ کو مشترک جدامجد یعقوب سے منسوب کرتی ہے۔

کتاب یہ بھی تجویز کرتی ہے کہ دوسری ہزاریہ قبل مسیح کی شروع کی صدیوں میں عبرانیوں کی خانہ بدوشی ہیبرون یعنی الخلیل کے اردگرد مرکوز رہی جس کا نتیجہ ان کے مقام تدفین یعنی پرکھوں کے غار کے قیام پر ہوا۔

بنی اسرائیل اس سرگزشت کے مطابق، بارہ قبائل پر مشتمل تھا، ہر ایک قبیلہ یعقوب کے بارہ بیٹوں کی اولاد تھا۔ روبن، شمعون، لیوی، یہودہ، آشکار، زابلن،ڈین، گاد، نفتالی، آشیر، یوسف اور بن یامین۔

بائبل کی کتاب پیدائش، باب 50-25، یعقوب اور اس کے بارہ بیٹوں کا قصہ بتاتا ہے جنہوں نے شدید قحط کے دوران میں کنعان چھوڑا اور شمالی مصر کے علاقے گوشن میں آباد ہوئے۔ شروع میں تو انہیں مصر میں زرخیز زمینیں دی گئیں تاہم صدیوں بعد مصری فراعنہ کی حکومت نے انہیں مبینہ طور پر غلام بنا رکھا تھا۔ قرآن اور سابقہ مقدس کتب اس کی تصدیق کرتی ہیں۔

کم و بیش 400 سال کی غلامی کے بعد اللہ یعنی یہوہ (اسرائیلی لوگوں کے خدا کا اس وقت کا نام) نے لاوی قبیلے کے عبرانی پیغمبر موسیٰ کو اسرائیلیوں کو فرعون سے رہائی کے لیے بھیجا۔ مقدس کتب کے مطابق، عبرانی معجزانہ طور پر ہجرت کر کے  مصر سے باہر نکلے (یہ واقعہ خروج یا ہجرت کے طور پر جانا جاتا) اور واپس اپنے آبائی وطن کنعان لوٹے۔

مقدس کتب  کے مطابق، مصری غلامی سے آزادی کے بعد (اسلام کے مطابق انہوں نے موسی کی حکم عدولی کی اور کنعانی قبیلے سے لڑنے سے انکار کیا جس کی سزا میں) بنی اسرائیل چالیس سال کی مدت تک سینا کے ریگستان میں گمراہ پھرتے رہے، جہاں انہیں من و سلوی ملتا رہا۔ پھر انہوں نے 1400 قبل مسیح میں یوشع بن نون کی زیر قیادت کنعان فتح کیا۔

بائبل کی تحریروں کے مطابق صحرا میں رہنےکی مدت کے دوران میں بنی اسرائیل کو دس احکام کوہ سیناء پر یہوواہ سے موسیٰ کے ذریعے موصول ہوئے۔  کنعان میں داخل ہونے کے بعد ہر ایک قبیلے کو زمین کا حصہ دیا گیا۔

قدیم ترین اسرائیلی بستیوں کی ثقافت کنعانی ہے، ان کے اشیائے مقدسہ کنعانی دیوتا ال کی ہیں، مٹی کے برتنوں میں مقامی کنعانی روایت پائی جاتی ہے اور ان کے حروف تہجی ابتدائی مقامی کنعانی ہے۔ واحد فرق ’’اسرائیلی‘‘ دیہات اور کنعانی مقامات میں زیر زمین دبی ہوئی سور کی ہڈیوں کی غیر موجودگی ہے، اسے نسلی فرق گنا جائے یا یہ فرق دیگر عوامل کی وجہ سے ہے ابھی تک یہ معاملہ متنازع ہے۔

کئی سو سال تک ارض مقدسہ کی بارہ متحدہ ریاستوں پر بارہ قبیلوں  کے اماموں (قضاۃ) کی حکمرانی کا تسلسل رہا۔ اس کے بعد 1000 قبل مسیح میں طالوت بادشاہ کے تحت اسرائیلی بادشاہت قائم ہوئی اور  بادشاہ داؤدؑ اور اُن کے بیٹے شاہ سلیمانؑ کے دور تک جاری رہی۔

داؤدؑ ہی کے دور حکومت میں پہلے سے قائم یروشلم اسرئیل اور یہوداہ کی متحدہ بادشاہتوں کا قومی اور روحانی دار الحکومت بنا۔ سلیمانؑ نے سب سے پہلے موریاہ پہاڑ (حرم قدسی) پر ہیکل تعمیر کی جو یروشلم میں ہے۔

تاہم، قبائل جو سیاسی طور پر انتشار کا شکار تھے، ان کی موت پر دس شمالی  قبائل اور دو جنوبی قبائل (یہودا اور بنیامین) کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی۔ بنی اسرائیل قوم دو ریاستوں میں تقسیم ہوئی شمال میں ریاست اسرائیل (سامریہ) اور جنوب میں مملکت یہوداہ کے نام سے، تقسیم کا فائدہ اٹھا کر شامی حکمران تلگت پلاسر سوم نے شمالی ریاست اسرائیل پر 8ویں صدی قبل مسیح میں قبضہ کیا۔

ایک غالب طاقت کے خلاف بغاوت اور نتیجہ خیز محاصرے کے بعد کی مملکت یہوداہ کو 587 قبل مسیح میں بابلیوں کی فوج نے فتح کیا اور پہلا ہیکل (ہیکل سلیمانی) تباہ کیا۔ مملکت کی اشرافیہ اور ان کے بہت سے لوگ جلاوطن کردیئے گئے تھے، جہاں ان کا مذہب روایتی ہیکل سے باہر ترقی پاتا رہا۔ جبکہ دوسرے مصر فرار ہوگئے۔

یروشلم کے زوال کے بعد بابل (موجودہ عراق)، یہودیت کے لیے ایک ہزار سے زیادہ سال تک توجہ کا مرکز بنا رہا۔ سب سے پہلی بابل میں مملکت یہوداہ کی جلاوطن یہودی برادری کا قیام 597 قبل مسیح میں یہوکونیاہ کی جانب سے آیا اور ساتھ ہی 586 قبل مسیح میں ہیکل سلیمانی کی تباہی بھی۔

بابل، جہاں یہود کے چند سب سے ممتاز شہر اور برادریاں قائم ہوئیں اور جو اس وقت سے لے کر 13ویں صدی تک یہودی زندگی کا مرکز بنا، پہلی صدی تک بابل کی آبادی کے بڑھاؤ میں تیزی آچکی تھی اور ایک اندازے کے مطابق سال 200 عیسوی سے 500 عیسوی میں دس لاکھ یہود تک اضافہ ہوا جو بعد میں بڑھ کر بیس لاکھ تک جا پہنچی، دونوں قدرتی بڑھاؤ اور زیادہ سے زیادہ یہود کی اسرائیل سے ہجرت  کی وجہ سے یہاں تک کہ دنیا کی یہودی آبادی کا چھٹا حصہ اس علاقے میں آباد ہوا۔

یہیں پر انہوں نے قدیم بابل کے یہودیوں کی زبانوں عبرانی اور ارامی میں بابلی تلمود لکھی۔ ان یہود نے بابل کی تلمودی درسگاہیں قائم کیں، جو جیونئیم درسگاہیں کہلاتی ہیں، جو بابل میں یہودی علم اور یہودی قانون کی ترقی کا مرکز بنیں۔ 500ء سے 1038ء تک دو سب سے زیادہ مشہور درسگاہیں پمبیدیتا اور سبورا تھیں۔ اہم (علم دین کے مدرسے) نیہاردیا اور مہوذا میں واقع تھے۔

کلاسیکی عثمانی مدت کے دوران میں 1600ء۔1300ء سلطنت کی تمام اقلیتی برادریاں بشمول یہود کسی حد تک خوشحالی و آزادی کا لطف اٹھاتے رہے۔ 17ویں ء صدی میں مغربی یورپ میں اچھی خاصی یہودی آبادیاں تھیں۔

یورپی نشا‌‍ ۃ ثانیہ اور روشن خیالی کی مدت کے دوران میں خود یہودی برادریوں میں بھی اہم تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔ 18ویں صدی عیسوی میں یہودیوں نے تحدیدی قوانین سے آزادی اور وسیع تر یورپی معاشرے میں انضمام کے لیے مہم شروع کی۔

1870ء اور 1880ء کی دہائیوں کے دوران یورپی یہود نے زیادہ فعال طور پر ہجرت کرنے اور یہود کو فلسطین اور ارض مقدسہ کے علاقوں میں دوبارہ آبادکاری کے بارے میں آزادانہ گفتگو اور بحثیں شروع کیں۔

صیہونی تحریک باضابطہ طور پر 1897ء میں قائم کی گئی۔ دریں اثنا، یورپ اور امریکہ کے یہود نے سائنس، ثقافت اور معیشت کے شعبوں میں میں مہارت حاصل کی جن میں عام طور پر سائنس دان البرٹ آئنسٹائن اور فلسفی لڈوگ وٹگنسٹائن کو سب سے زیادہ مشہور سمجھا جاتا ہے۔ اس دور کے بعد سے یہود نے بڑی تعداد میں نوبل انعام جیتنا  شروع کیے۔

1933ء میں ایڈولف ہٹلر اور نازیوں کے جرمنی میں اقتدار میں آتے ساتھ یہودیوں کی صورت حال زیادہ کشیدہ ہو گئی۔ اقتصادی بحران، سام مخالف نسلی قوانین اور قریب تر ہوتی آئندہ کی جنگ کے خوف نے بہت سے یہودیوں کو یورپ سے فلسطین، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین فرار ہونے پر مجبور کیا۔

1939ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔ 1941ء تک ہٹلر نے پولینڈ اور فرانس سمیت تقریباً تمام یورپ جہاں اس وقت لاکھوں یہودی رہ رہے تھے پر قبضہ کر لیا۔ 1941ء میں سوویت یونین پر حملے کے بعد یہودیوں کا حتمی علاج یعنی یہودی لوگوں کا وسیع پیمانے پر بے مثال و منظم قتلِ عام شروع ہوا جس کا مقصد یہودی نسل کی فنا و تعدیم تھا اور جس کے نتیجہ یورپ بشمول شمالی افریقہ (نازی نواز وکی، شمالی افریقہ اور اطالوی لیبیا) میں یہود پر ظلم و ستم اور عقوبت وقوع پزیر ہوا۔

1945ء میں فلسطینی یہودی مزاحمتی تنظیمیں متحد ہوئیں اور یہودی مزاحمتی تحریک ہگانا کی باقاعدہ بنیاد ڈالی اور ساتھ ہی ساتھ بحری جہازوں میں غیر قانونی تارکین وطن یہود کو فلسطین میں آباد کرنے لگے۔

ڈیوڈ بن گوریان نے 14 مئی 1948ء کو ارض اسرائیل میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا، جو اسرائیلی ریاست کے طور پر جانا گیا۔ 1949ء میں عربوں کے ساتھ جنگ ختم ہوئی تو اسرائیل کی ریاست کی تعمیر شروع  ہوئی، ریاست نے بڑے پیمانے پر دنیا بھر سے سینکڑوں ہزاروں یہودی مہاجرین  کی لہروں کو جذب کیا۔ آج اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریت ہے جس کی آبادی 90 لاکھ افراد سے زائد ہے۔ اسی طرح امریکہ، فرانس، ارجنٹائن، روس، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جرمنی میں بھی بڑی تعداد میں یہودی آباد ہیں۔