یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے یکساں مقدس ہے اور اس کا مقدس ترین مقام بیت لحم کہلاتا ہے
حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو اس وقت یہاں یہودیوں کا کوئی معبد نہ تھا۔ بلکہ کھنڈر پڑے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ کے حکم پر ان کھنڈرات پر ایک مسجد تعمیر ہوئی۔ ایک قدیم سیاح آرکلف نے بھی ایک سادہ سی مسجد کا ذکر کیا ہے جو ۶۷۰ء میں مقدس مقام کی زیارت کیلئے بیت المقدس آیا تھا۔
تقریباً اس کے سادہ سی تعمیر کے پچاس سال بعد اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ۷۲ھ/ ۶۹۰ء میں مسجد اقصیٰ اور قبتہ الصخرہ کی بنیاد اٹھائی۔ تاہم یہ خلیفہ قبتہ الصخرہ کی تعمیر ہی مکمل کرسکا۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا کام جو ادھورا رہ گیا تھا ولید بن عبدالملک نے مکمل کرایا۔
وہ مقدس مقامات جن کی بدولت یہ مقدس شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی عقیدتوں کا مرکز ہے۔ اکثر و بیشتر شہر کی مشرقی پہاڑ پر ایک احاطہ میں ہیں جس کو مسلمان حرم شریف اور یہودی بیت لحم کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ بیت المقدس کا مقدس ترین حصہ ہے۔
ڈاکٹر برکلے کے ایک بیان کے مطابق حرم شریف ۳۶ ایکڑ پر مشتمل ہے۔ مسجد اقصیٰ اور قبتہ الصخرہ اسی حرم میں ہیں۔ حرم کیا جگہ جگہ بلند مقامات ہیں، جنہیں مسلمان محراب کہتے ہیں اور ان کے سامنے نوافل ادا کرتے ہیں۔
حرم شریف میں چار حوض وضو کیلئے اور پانچ ممبر واعظین کیلئے ہیں۔ مصتورات کیلئے تین مقصورے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی دروازوں کی تعداد پچاس ہے۔ دوسری جانب ۱۹۶۷ میں مولانا شیر علی نے حریف شریف کا طول ۱۲۰۰ گز عرض ۶۶۰ گز اور دروازے ۱۴ بتائے ہیں۔ احاطہ حرم کے اندر جو زیارتیں ہیں ان میں مسجد اقصیٰ اور قبتہ الصخرہ کے علاوہ مندرجہ ذیل عمارات ہیں:
۱۔ مغارۃ الارواح
قبتہ الصخرہ کے نیچے چٹان کی جنوبی سمت گیارہ سیڑھیوں سی ایک غار میں واقع ہے۔ اسے مغارۃ الارواح کہتے ہیں۔ تہہ خانے کا فرش سنگ مرمر کا ہے۔ بقول ابن حوقل اور اصطخری چٹان کے نیچے کا کمرہ نہ مربع ہے نہ گول بلندی میں قد آدم جتنا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت زکریاؓ کی قبر اسی غار میں ہے۔
کہتے ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ غار ایک خلاء تھا اور چٹان کے نیچے ایک کنواں تھا۔ بیر الارواح کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں اس کنویں پر دیوار بنا دی گئی۔ اس غار میں مختلف انبیا کی جائے عبادت کو محرابوں سے مخصوص کیا گیا ہے۔
غار کے شمالی حصے میں مقام خضیرؑ اور جنوبی کونے میں مقام داؤدؑ ہے۔ ایک مقام کے بارے میں ہے کہ اسے مقام النبیؐ کہا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ آنحضرت محمدؐ نے یہاں نوافل ادا کئے تھے۔ اس غار میں موئے مبارکؐ اور نقش پائے مبارکؐ بھی ہیں، جو اس غار کے جنوب مشرقی کونے میں ایک الماری میں محفوظ ہے۔
اس الماری کے سامنے ایک صندوق میں آنحضرت محمدؐ اور حضرت عمرؓ کے الم محفوظ کئے گئے ہیں۔ اس غار میں اتنی گنجائش ہے کہ ایک وقت میں یہاں پچاس ساٹھ آدمی سما سکتے ہیں۔
۲۔ قبتہ السلسلہ
بقول مقدسی حرم شریف کے وسط صحن میں ایک چبوترہ اٹھا ہوا ہے جس کے چاروں طرف کافی چوڑی سیڑھیاں ہیں۔ چبوترے پر چار گنبد بنے ہوئے ہیں۔ ان میں قبتہ السلسلہ، قبتہ المعراج اور قبتہ النبیؐ کچھ زیادہ بڑے نہیں ہیں جو سنگ مرمر کے ستونوں پر بغیر دیوار کے قائم ہیں۔
بقول ابن فقیہ قبتہ الصخرہ کے مشرق کی جانب قبتہ السلسلہ بیس ستونوں پر کھڑا ہے۔ اس کے سامنے مشرق ہی کی طرف حضرت خضرؑ کا مقام عبادت ہے۔ اس کے شمالی رخ پر قبتہ النبیؐ اور مقام جبرئیلؑ ہیں اور چٹان میں کے برابر قبتہ المعراج ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس کی تاریخ کے جھروکے (پہلی قسط)
یہ قبہ زیادہ پائیدار اور مستحکم نہ تھا۔ اس لئے بار بار زلزلوں سے متاثر ہوتا رہا اور پھر تعمیر بھی ہوتا رہا۔ اس چبوترے کے دوسرے قبوں قبتہ النبیؐ، قبتہ المعراج اور قبتہ جبرئیل کے بارے میں ابن عبدربہ نے لکھا ہے:
(۱) وہ گنبد جہاں سے آنحضرت محمدؐ آسمان پر تشریف لے گئے۔
(ب) اس مقام کے اوپر کا گنبد جہاں آنحضرت محمدؐ نے انبیاء سابقین کے ہمراہ نماز ادا فرمائی۔
(پ) معبد جبرئیل۔
۳۔ عہد مسیحؑ
احاطہ حرم شریف کے جنوب مشرقی گوشے میں قدم آثار پر ایک چھوٹی سی زمین دوز مسجد جس کا طول و عرض ۲۰ گزX ۴۵ گز ہے، عہد مسیح کے نام سے موسوم ہے۔ ابن عبدربہ نے اسے محراب مریم بنت عمران اور مقدسی نے محراب مریم و زکریا کے نام سے موسوم کیا ہے۔
عہد مسیح میں پرانے زمانے سے ایک پنگوڑا زمین میں گڑا ہوا ہے، جسے حضرت عیسیٰؑ کا پنگوڑا کہا جاتا ہے۔ اسی پن گوڑے کو مسجد کی محراب بنا دیا گیا ہے۔ محراب مریم اور محراب زکریا اس کے مشرقی پہلو میں ہیں۔
روایت ہے کہ حضرت مریمؑ نے دردزہ کی شدت میں اس پتھر کو زور سے پکڑا تھا۔ اور یہ انہی کی انگلیوں کے نشان ہیں۔ عہد عسیٰؑ کے مغرب میں اصطبل سلیمان ہے اور دونوں کے درمیان ایک دروازہ ہے۔ محراب داؤد اب ختم ہو چکی ہے۔ البتہ اس کے قریب ’’کرسی سلیمان‘‘ قد آدم بلند چٹان کی صورت موجود ہے۔ (جاری ہے)